سیِّدِ کائنات،فخرِ موجوداتﷺ کی ذاتِ مقدَّسہ سےجس شے کوبھی نسبت ہوجائے، وہ مبارَک ،معظَّم اوراَشرف و اَعلیٰ ہوجاتی ہے۔نسبت ِ مُصطفیٰ علیہ التَحیۃُ والثَناء تو ذرے کو زَر(سونا،Gold)اور شمع کو آفتاب بنادیتی ہے۔اللہ ربُّ العزت کےمحبوبِ عالی مرتبت ﷺ سےنَسب کا رشتہ ہو،سُسرالی تعلّق ہو یا صحبت و قُرب کاشرف ہو،سب ہی پاکیزہ و نایاب اور عُمدہ و لاجواب ہیں۔ تاریخ ِ ا سلام کے اَوراق پر کئی ایسی ہستیوں کےتابِندہ و روشن نام تحریر ہیں جنہیں نبی اَکرمﷺسے یہ تینوں نسبتیں حاصل ہیں۔اُنھیں میں سے ایک روشن اور چمکتادمکتانام اَوّل مُلوکِ اسلام،امیرالمؤمنین ،کاتبِ وحی حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کابھی ہے۔ذیل میں صحابیِ رسول حضرت سیِّدُناامیر مُعاوِیہرضی اللہ عنہکی اِن تینوں مبارَک نسبتوں کا اِختصار کےساتھ بیان مُلاحظہ ہو:
نسبی رشتہ داری :
خالُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کاشجرۂ نَسب والد ِ ماجد اور والدۂ محترمہ دونوں کی طرف سے “عبدِ مَناف”تک جا کر رسولِ ذیشانﷺکے عالی اورمبارَک سلسلۂ نَسب سے مل جاتاہے۔یوں حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کا شُمار نبیِ کریم ﷺ کےنسبی رشتہ داروں میں ہوتاہے۔
سرکارِ اعظم ﷺ کاشجرۂ نسب:
حضرتِ محمدﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطَّلب بن ہاشم بن عبد مَناف۔
(صحیح بخاری)
حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ نسب:
والد کی طرف سے:
مُعاویہ بن ابوسفیان صخربن حَرب بن اُمَیّہ بن عبدِ شمس بن عبدِ مَناف۔
(سیراعلام النبلاء،3/119)(الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،6/120)
والد ہ کی طرف سے:
مُعاویہ بن ہِند بنتِ عُتبہ بن ربیعہ بن عبدِ شمس بن عبدِ مَناف۔
(سیراعلام النبلاء،3/120)(اسدالغابۃ،7/316)
نَسب میں ہیں تجلیاں قَبیلۂ رسول کی
قُریشیت سے بڑھ گئی شرافتِ مُعاوِیہ
سُسرالی رشتہ داری:
حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہکوحضورِ اکرم ﷺسے سُسرالی رشتہ داری کا شرف بھی حاصل ہے، یوں کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ(سگی بہن) حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنھاسرورِ دوعالم ﷺ کی مقدَّس زوجہ اور اُمّ المؤمنین(مومنوں کی مقدَّس ماں) ہیں ۔اِن کا اصلی نام “رَملہ”ہے۔
(المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،4/403)
چنانچہ جامع المَعقول والمنقول حضرت علامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی قُدِّسَ سِرُّہ نے اپنی کتاب “النِبراس”میں تحریر فرمایا:
کَانَ اُخْتُہُ اُمُّ حَبِیْبَۃَ رضی اللہ عنھا زَوْجَ النَبِیّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔حضرتِ امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کی بہن اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنھا نبیِ کریم ﷺ کی زوجہ مبارَکہ ہیں۔
(النبراس شرح شرح العقائد،ص307)
اِسی پاکیزہ نسبت اور تعلّق کو بیان کرنے کے لئے کئی علماء اور محدِّثین کرامرحمۃُاللہ علیھم اَجمعین نے حضرتِ سیِّدُنا امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ کےلئے “خَالُ الْمُؤْمِنِیْنَ” کالقب استعمال فرمایاہے،جس کا معنیٰ “مومنوں کا ماموں”ہے۔چنانچہ محقّقِ اہلسنت شیخ علی بن سُلطان المعروف مُلّا علی قاری علیہ رحمۃُاللہ الغنیمشکوۃ شریف کی شرح”مِرقاۃُالمفاتیح” میں حضرتِ امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہسے روایت کردَہ ایک حدیثِ پاک کی تشریح کرتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ کےلئے “خال المؤمنین” کےالفاظ تحریر فرمائے ہیں،عبارت ملاحظہ ہو: (وعن معاویۃ) اَیْ ابن اَبی سفیان، وَھُوَ خَالُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
(مرقاۃالمفاتیح،کتاب الرقاق،تحت الحدیث:5203،9/397)
ہیں ان کی خواہرِ عزیز جملہ مومنوں کی ماں
بڑی شَرف مآب ہے ،نجابتِ مُعاوِیہ
نسبتِ صحابیت :
کاتبِ وحی حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کی سب سے شاندار اورنمایاں فضیلت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہکوسیِّدُالعَالمین ﷺ کاصحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔جنابِ امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کی کوئی اور فضیلت یا خصوصیت بیان نہ بھی کی جائے تو آپ کاصرف صحابیِ رسول ہونا ہی ساری عظمتوں اور رِفعتوں کاجامع ہے ،ایسا کیوں نہ ہو کہ نبوت و رِسالت کے مرتبے کے بعد صحابیت کا درجہ ہی بڑا درجہ ہے ۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”تابعین سےلےکر تابقیامت اُمت کا کوئی ولی کیسے ہی پایہ عظیم کو پہنچے،صاحبِ سلسلہ ہو خواہ غیر ان کا ،ہر گز ہرگز(حضورﷺ کے صحابہ )میں سے اَدنیٰ سےاَدنیٰ کےرُتبہ کو نہیں پہنچتا،اور ان میں اَدنیٰ کوئی نہیں۔” (فتاویٰ رضویہ ،29/357)
حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا ثبوت سینکڑوں کُتب میں موجود ہے ۔چنانچہ قرآنِ مجید کےبعد مسلمانوں کی سب سے مُستند اور معتبر کتاب”صحیح بخاری ” کی روایت ملاحظہ ہو کہ جس میں صحابی ابنِ صحابی ،رسولِ غنیﷺ اور حضرتِ علیرضی اللہ عنہ کے چچاجان کےشہزادےحضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے جنابِ امیر مُعاویہرضی اللہ عنہکےصحابیِ رسول ہونے کا بیان فرمایا،آپ رضی اللہ عنہ کے مبارَک کلمات یہ ہیں: فَاِنَّہُ قَدْ صَحِبَ رَسُوْلَ اللہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ بیشک یہ(امیرِ مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ) رسول اللہ ﷺ کی صحبت پانےوالے(یعنی صحابی) ہیں۔
(صحیح بخاری،کتاب فضائل الصحابہ،الحدیث:3764)
گُلِ حیات ان کا ہےصحابیت سےعطربیز
اِسی لئے ہے نَوبہ نَو،نَضارتِ مُعاوِیہ