نظام الملک طوسی نے یہ مدرسہ کافی شاندار بنایا تھا ۔ کسی نے بادشاہ وقت کو اطلاع دی کہ جناب اس مدرسے میں تو سب بچے دنیادار ہے کسی کو اللہ کی رضا کی فکر نہیں ہے،
بادشاہ نے جب یہ سنا تو غصے میں آگیا اور کہا اگر ایسی بات ھے تو مجھے اتنے دینار خرچ کرنے کا فایدہ کیا، بند کردیا جاے وہ مدرسہ۔ لیکن پھر دل میں خیال آیا کہ چلو ایک بار میں دیکھ لیتا ہوں کہ کیا ہورہا ہے۔
بادشاہ وقت مدرسے میں بھیس بدل کر داخل ہوا دیکھا کچھ لڑکے پڑھ رہے تھے اس نے سلام کیا اور بچوں میں بیٹھ گیا ۔ ایک بچے سے کہا ” بیٹا یہاں کیا کررہے ہوں آپ ” بچے نے جواب دیا میرا باپ مفتی ہے میں اس لیے پڑھ رہا ہوں کہ باپ کی جگہ سنبھال سکوں” بادشاہ نے سنا تو کہا ٹھیک ہے اچھا کررہے ہوں دوسرے بچے سے کہا ” بیٹے تم یہاں کیوں آے ہوں” اس بچے نے جواب دیا ” میرا والد فلاں جگہ قاضی ہے میں بڑا ہوکر انکا عہدہ سنبھالوں گا” تیسرے بچے سے بھی سوال کیا تو اس نے جواب دیا ” بادشاہ وقت علماء کی قدر کرتا ھے لہذا میں بڑا ہوکر عالم بنوں گا” بادشاہ نے جب یہ بات سنی تو کہا واقعی یہ تو سب کے سب دنیادار ہے مجھے اتنا پیسہ دنیاداروں پر خرچ نہیں کرنا چاھیئے۔
یہ ارادہ لیکر جب باہر نکل رہے تھے تو دروازے کے ساتھ ایک بچے کو بیٹھا ہوا پایا جو چراغ کی روشنی میں کتاب پڑھ رہا تھا اسلام وعلیکم بادشاہ نے کہا وعلیکم اسلام بچے نے جواب دیا اور کتاب پڑھنے لگا ” بچے کیا آپ میرے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتے” بادشاہ نے کہا ” میں یہاں باتیں کرنے نہیں آیا ” بچے نے کتاب پڑھتے ہوے کہا ” تو بچے آپ یہاں پھر کیوں آے ہے” بادشاہ اسکے قریب بیٹھا گیا ” میں یہاں ایک مقصد لیکر آیا ہوں اپنے رب کی رضا کا مقصد مجھے نھیں معلوم میں اپنے رب کی رضا کیسے پاؤں گا لیکن واحد زریعہ اپنے رب کی رضا پانے کا جو ہے وہ یہ کتابیں ہیں لہذا میں یہاں کتابیں پڑھنے آیا ہوں کہ اپنے رب کی رضا کا راز جان سکوں” بچے نے کتاب سے ذرا بھی سر نہ اٹھایا اور سبق پڑھتے ہوے بادشاہ کو جواب دیا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ بچہ کون تھا؟
تاریخ دنیا آج اس انسان کو امام غزالی کے نام سے جانتی ہے، نظام المک نے جو مدرسہ بنایا تھا۔ کہنے کو تو وہ ایک چھوٹا سا مدرسہ تھا لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس مدرسے سے سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا عظیم جنگجو بھی فارغ ہوا تھا۔“