7 ستمبر 1965ء کو پانچ بھارتی طیارے ایک منٹ سے کم وقت میں مار گرانے والا “لٹل ڈریگن” کے نام سےجانا جانے والا ایم ایم عالم ہو

یا پھر 20 اگست 1971 کو 20 سال کی عمر میں عزت کو جان پر فوقیت دیتے ہوے پاکستانی جنگی طیارے کو ہائی جیک کر کے انڈیا لے جانے کا منصوبہ ناکام بنانے والا راشد منہاس ہو یا 27 فروری 2019 میں ’’کرگس‘‘ کا شکار کرنے والے شاہین وِنگ کماندڑ نعمان اور سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی ہوں ان سب نے ملکی دفاع میں جو کردار ادا کیا اس سے واضح ہے کہ روایتی جنگوں میں اب فضائیہ کا کردار ہی فیصلہ کن ہوتا ہے.

پاکستان خوش قسمت ترین ملک ہے کہ ناکافی وسائل کے باوجود اسکی فضائیہ کی خطے میں برتری تسلیم شدہ ہے ایک وقت تھا کہ پاکستانی ائیرفورس مالی وسائل کی کمی کے باعث عالمی طاقتوں سے وہ ٹیکنالوجی حاصل نہیں کر سکتی تھی جو انڈین ائیرفورس حاصل کرتی ہے۔

پاک فضائیہ نے محدود وسائل میں رہتے ہوے حالیہ سالوں میں اپنے بل بوتے پر جدید ترین صلاحیتوں کے حصول میں بے مثال پیش رفت اور خود کفالت حاصل کی جو دنیا کے لیے حیران کن تھی اسے نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے بلکہ پاکستان کی ان صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے دنیا کے متعدد ممالک نے پاکستان سے معاہدے کئیے پاکستانی فضائیہ کے ناصرف پائلٹ اپنی ہوابازی کی مہارت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

بلکہ پاکستان کی فضائی و دفاعی مصنوعات “سپر مشاق ایئرکرافٹ” سمیت جے ایف 17 تھنڈر جیسے جنگی جہاز اب پاکستان کی دفاعی صنعت کے لئے بڑا ایکسپورٹ آرڈر ہیں ترکی، عراق سے لیکر آزربائیجان تک پاکستان کی دفاعی مصنوعات کے سودے پاکستان کی دفاعی قابلیت و صلاحیت پر مہر ثبت کرتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان کی اس کامیابی پر بھارت اور بیرونی ایجینسز کے ڈالر خور ایجنٹوں کی پاکستان کی فضائیہ کے خلاف پراپگنڈہ مہم اس بات کا اظہار ہے کہ آگ دور تلک لگی ہوئی ہے پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کا زیادہ تر حصہ دفاعی سازو سامان کی فروخت سے پورا کر رہا ہے پاکستان کی مسلح افواج اپنے مثالی تنظیمی ڈھانچے کی وجہ سے جانی جاتی ہیں، مسلح افواج میں مضبوط ترین احتساب کا نظام ہونے کے کے باعث اعلیٰ ترین افسران کو بھی ان کے اعمال و افعال کے لیے پوری طرح جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے اس لیے یہ کہنا بےجا نا ہوگا کہ شفافیت اور قابلیت کا دوسرا نام افواج پاکستان ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں